Saturday 11 March 2017

Facebook

یہ بات بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ پاکستان میں فیسبک بند نہیں ہوسکتی اگر ہوئی بھی تو ایک بڑے محدود وقت کے لیے ہو گی۔ 
اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت پوری دنیا میں انوکھے ملک ہیں۔ ان ممالک کی عوام انتہا کی قابل بھی ہے اور انتہا کی جاہل بھی ہے۔ 
یہ ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ دنیا کے ترقی پزیر ممالک میں فیسبک ان ممالک کی نسبت زیادہ استعمال ہوتی ہےجو ترقی یافتہ ہیں ۔ پاکستان ہو یا ہندوستان ، یہ دونوں ممالک تا حال ترقی پزیر ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ اپنی صلاحیتں تحقیق اور کتب پر صرف کر کے نئی ایجادات کرتے ہیں جبکہ ترقی پزیر ممالک کے لوگ اپنی صلاحیتں فیسبک کے استعمال پر صرف کرتے ہیں جو اتنا گوارا بھی نہیں کرتے کہ اس کا صیح استعمال ہی جان لیا جائے۔
انسانی نفسیات کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندد اگر فطرتی طور پر صلاحیت یعنی انرجی ہے تو ہی وہ کوئی کام کر سکتا ہے۔ اگر صلاحیت ہو مگر کوئی نفع بخش کام نہ ہو تو صلاحیت غلط کاموں میں صرف ہو جاتی ہیں۔ نفسیات دان اس بات کی وضاحت کے لیے آئن سٹاین کی ماس انرجی ایکویشن کی مدد لیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ انرجی کی ایک صورت کو دوسری صورت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ مثلا کرنٹ سے پنکھا چلتا ہے ، پیڑول بھی انرجی کی ایک قسم ہے جس کو اگر کسی موٹر انجن میں ڈالا جائے تو  شور ، گرماہٹ کے بعد موٹر چلتی ہے اس طرح انرجی کی ایک قسم تین طرح کی انرجی میں بدل جاتی ہے۔ اس بات کو یوں بیان کرتے ہوئے ماہر نفسیات یہ بیان کرتے ہیں کہ انسان کی صلاحیت یعنی انرجی کو اگر صیح کام میں صرف نہ کیا جائے تو یہ غلط کاموں میں صرف ہو جاتی ہے کیونکہ انسان اپنی انرجی کو مکمل طور پر محفوظ نہیں کرسکتا کیونکہ انسانی دماغ کبھی سونے کے دوران بھی نہیں سوتا یہاں تک کہ اس کو موت آجاتی ہے۔ 
پاکستان اور بھارت پوری دنیا میں انوکھے ملک ہیں۔ ان ممالک کی عوام انتہا کی قابل بھی ہے اور انتہا کی جاہل بھی ہے۔ پاکستان کے جوان اپنی صلاحیتوں کی بناء پر بہت قابل ہے مگر یہ اپنی صلاحیتں جب نفع بخش کاموں میں صرف نہیں کر پاتے تو یہ غلط کاموں میں ضائع ہو جاتیں ہیں جس بناء پر یہ انتہا کے جاہل بھی ہیں۔ فیسبک کے استعمال کو بڑی ترقی کی بات سمجھتے ہیں لیکن یہ خیال نہیں اسطرح ان کی صلاحیتں ختم ہو جاتی ہیں۔ ہر فیسبک استعمال کرنے والا خود اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس کا کتنا استعمال فائدہ مند ہے اور اکثریت اس کو کسطرح استعمال کرتی ہے اور اپنی قیمتی صلاحیتوں کا کس طرح استعمال کرتی ہے۔ اعتراض یہ نہیں ہے کہ فیسبک استعمال کرتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ کس طرح کرتے ہیں۔

پاکستان کے جوان فیسبک کے مالک کے محسن ہیں۔ ان کو یہ بتانا چاہتا ہوں انکے صرف ایک دفعہ لوگ ان کرنے سے فیسبک کے مالک کو دو ڈالر کا فائدہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں فیسبک استعمال کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ اس بات کا کیا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فیسبک کے مالک مارک زکربرگ کے اکاونٹ میں پاکستانی قوم کتنے زر کا اضافہ کر رہی ہے۔ آج یہی فیسبک کا مالک دنیا کا چوتھا امیر ترین بندہ ہے۔ اگر فیسبک کو پاکستان میں بند کر دیا جائے تو اس بات کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں کہ مارک زکربرگ کو کتنا نقصان ہوگا جو کہ وہ کبھی اپنے لیے پسند نہیں کرئے گا۔ پاکستان کے بکاو حکمران جس طرح پیسے کو اپنا خدا سمجھتے ہیں اور عالمی طاقتوں کے آگے جھکتے ہیں اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں صرف ممتاز قادری کی شہادت اور مدمقابل آسیہ ملعونہ کی حفاظت سے ہی عیاں ہے۔ اس لیے فیسبک کے مالک کو نقصان پاکستانی حکومت سے کبھی برداشت نہیں ہو گا اور نہ فیسبک بند ہو گی اگر ہوئی تو بہت کم عرصے کے لیے ہو گی۔ 
پاکستانی جوان کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں آپ فیسبک  پر کسی حسینہ سے بات کر کے یا فضول مقاصد میں اپنی صلاحیتوں کا غلط استعمال کرتے ہیں وہاں کبھی اپنی ان صلاحیتوں کو تعمیری کاموں میں بھی صرف کر لیا کریں۔ جہاں فیس بک استعمال کرتے ہیں وہاں کبھی یہ بھی سوچ لیں کہ فیسبک کو بنانے والا کسی آسمان سے نہیں اترا وہ بھی آپ جیسا انسان ہے ۔ اگر وہ فیسبک جیسی سائٹ تیار کر کے دنیا کے امیر ترین بندوں میں شمار ہو سکتا ہے تو آپ کیوں نہیں ہو سکتے۔  جو جوان گیمز کے دیوانے ہیں ان سے گزارش ہے کہ کبھی ایک گیم بنانے کا خواب بھی دیکھیں۔ گیمز بنانے والے جو کڑور پتی بن جاتے ہیں اور ہم جیسوں کی صلاحیتوں کو صرف ایک گیم میں الجا کے رکھ دیتے ہیں ان کو کوئی سرخاب کے پر نہیں لگے ہوتے۔ بس وہ اپنی محنت سے اور اپنی صلاحتیوں کے درست استعمال سے کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ ہو سکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں۔ اپنے آپ کو سمجھانے کی بات ہے کہ گیمز بھی الجا دیتی ہے اور ریاضی یا فزکس کا سوال بھی ، پاکستانی جوان اپنی صلاحیت کو گیمز میں الجا کر ضائع کر دیتا ہے  جس سے آج تک ان کو کچھ نہیں ملا جبکہ اگر وہ اپنی صلاحیتوں کو ریاضی ، فزکس اور کمپیوٹر کی الجھنوں کو حل کر لے تو دوسروں کو الجا سکتا ہے۔ اب ان کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے بس الجھ کے رہ جانا ہے  یا الجھانے والی گیمز تخلیق کرنا ہے۔   یاد رہے وسائل کی کمی کوئی بڑا المیہ نہیں ہے جس کے لیے صرف انتا کہنا کافی ہے کہ "پیاسا کوا بھی تھا تو اس نے اپنے لیے پانی کا انتطام کر لیا تھا اپ کے پاس تو دماغ ہے"۔ شکریہ
میاں محمد عاقب صفدر

No comments:

Post a Comment