Friday 17 January 2020

Pornography and Hudood Ordinance





فحش فلم  اور اسلامی حدود قوانین
فحش فلم نے انسانی دنیاپر جو اثرات ڈالے ہیں ان کو معلوم کرنا شاید اب مشکل کام نہیں رہا کیونکہ شوہر بیوی کی طلاق سے لیکر معصوم بچوں کے اغوا ء اور قتل تک ہر معاشرتی پریشانی اور ظلم کا تعلق فحش فلم سے جڑا ہے۔ اس بات کی تفصیل الگ ہو گی کہ فحش فلم  کس طرح معاشرے کے امن کو تباہ کررہی ہے اور ایک بہت بڑی حد تک تباہ کر چکی ہے۔ 
گزشتہ ایک دھائی  سے فحش فلم نے اپنا رنگ بدلا ہے کہ عام عوام نے بھی اپنے جنسی تعلق کی فلم بنا کر انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرنا شروع کر دی۔ جن میں اکثر ایسے ہیں جن کو ریونج پورن   Revenge Porn    کہتے ہیں ۔ یعنی ایک لڑکے نے لڑکی کو جنسی تعلق کے لیے منایا پھر اس کے تعلق قائم کرتےہوئے اس سب فعل کی ویڈیو بنا لی اگر لڑکی نے منا کر نا چاہا تو اس وقت قسمیں کھانا شروع کر دیا کہ بعد میں ڈلیٹ کر دوں گا  اور اس پر لڑکی کیمرہ کے سامنے فعل کرنے پر مان گئی ۔   اس کے بعد لڑکے نے بار بار لڑکی کو کرنے پر محبور کیابلیک میل کرنا شروع کر دیا اور جب اس نے  کبھی منع کر دیا تو پھر اس کی ویڈیو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کر دی۔   نتیجہ یہ نکلا کہ لڑکی نے ذہر کھا لیا اور مرگئی لیکن گھر والے زندہ رہنے کے قابل نہ مرنے کے قابل۔ یہ ریونج پورن انڈیا کیا پوری دنیا میں اب یہ کام بہت عام ہو گیا ہے اور  اب پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں آرہا ہے۔ محققین نے ریونج پورن  جبری جنسی زیادتی کی ویڈیوز کے بڑتے ہوئے اعداد وشمار پر خطرہ کا اظہا ر کیا۔   
پورن گرافی کی تاریخ، نقصانات ، اعداد وشمار وغیرہ پر قسط وار چند سال قبل لکھا تھا جس کا مقصود یہ تھا کہ عوام  کوتھوڑی اگاہی ہو سکے کہ وہ کس جانب جا رہی ہے۔  اس کا دل و دماغ پر کیا اثر ہوتا ہےکہ کس طرح انسان ذہنی طورپر مفلوج ہو کر انسانی درندہ بن جاتا ہے کہ قبر میں بند مردہ ، معصوم بچہ ، حتی کے محرم رشتے کی پہچان بھی بھول جاتا ہے۔ لیکن مجھے حیرت تب ہوئی جب وہ والے مفکرین جو فحش فلم کی ہمایت کرتے تھے لیکن ریونج پورن پر اور چائلڈ پورن گرافی  کو ملامت کرنے لگے اور اس بات کو کوسنے لگے کہ اب اس کا علاج کیا ہے۔ اس کو کس طرح روکا جائے۔ 
اس پر عرض یہ ہے کہ غلاظت کا بیج جب ڈال دیا جاتا ہے تب اس کی نتائج پھر انسانی ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ ریونج پورن بھی ایک پورن گرافی کا نتیجہ ہے ایک اثر ہے۔ بنیادی طور پر اگر اس دنیا میں امن چاہتے ہو عزت برقرار چاہتے ہو تو اس غلاظت سے جان چھڑوانی ضروری ہے۔  لیکن جیسا کہ اعداد وشمار سے یہ واضح کیا تھا کہ یہ اب اتنا بڑا کاروبار ہے جو کہ ہالی وڈ اور بالی وڈ سے بھی بڑاہے جس کا خاتمہ اتنا آسان نہیں ہےاور وہ بھی اس کارپوریٹ کلچر کے دور میں۔  اس پر بھی ایک مفصل مضمون  بنتا ہے کہ پورن گرافی کو اتنا بڑھاوا دینے میں کن طاقتوں کا ہاتھ ہے۔ باقی پاکستان تو ایک اسلامی ملک ہے ادھر اس کی روک تھام مشکل نہیں لیکن افسوس گزشتہ دو دہائیوں سے جیسی قانون سازی ہوئی ہے اس نے اسلامی معاشرہ کی بنیاد اکھاڑ دی ہے۔ جس میں بنیادی دو قوانین ہیں ۔ ایک حدود آرڈنینس کا خاتمہ اور دوسرا فیملی لاز میں تبدیلیاں ۔
حدود آرڈنینس وہ وقوانین ہیں جن میں سز ا اسلام کی طرف سے متعین ہے اور تبدیل نہیں ہو سکتی۔  چوری کی سزا ہاتھ کاٹ دینا ہے۔ غیر شادی شدہ زنا کر ئے تو اس کی سزا سو کوڑے ہیں ۔ شادی شدہ زنا کرئے تو اس کی رجم کرناہے یعنی انسان کو پتھر مار مار کر ہلاک کردینا ہے۔  لیکن اس کے لیے شرائط بہت سخت رکھی گئی ہیں  ۔ یعنی حد تب جاری ہوگئی جب  مرد و عورت کو  ٹھیک حالت زنا میں چار پاک باز مرد جن کی سچائی دیانت امانت کے سب قائل ہوں انہوں نے دیکھا ہو اور وہ اس بات کی گواہی عدالت میں دیں۔   
یہ اتنی سخت شرائط ہیں کہ چودہ سو سال کی اسلامی تاریخ میں ایک واقع ایسا نہیں ملتا کہ گواہیوں کی بنیاد پر زانی کو حد جاری کی گئی ہو۔ دور نبوت میں بھی دو مسلمانوں پر حد جاری کی گئی لیکن وہ بھی گواہیوں کی بنیاد پر نہیں تھی بلکہ اقرار کی بنیاد پر کی گئی ۔ حدعدالت کی جانب سے تب بھی جاری ہوتی ہے جب مسلمان خود اپنی پوری عقل اور ہوش و حواس میں چار بار یہ اقرار کرتا ہے کہ اس سے زناہوا۔   لیکن گواہیوں کی بنیاد پر آج تک کسی پر حد جاری کی گئی ہو اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حد پر اتنی سخت شرائط کیوں رکھی گئی؟ 
 پاکستان میں پروز مشرف کے دور اقتدار میں حدود آرڈنینس کو ختم کر دیا گیا۔ لبرلز او ر ملحدوں کی جانب سے یہ اعتراض کیا گیا کہ اب کسی عورت کےساتھ جنسی زیادتی ہوئی مگر وہ عدالت میں انصاف لینے گئی اور عدالت نے اس سے چار گواہ طلب کیے کہ تمہیں انصاف تب ملےجب تم چار پاک باز مرد وں کی گواہی پیش کرو جنہوں نے تمہیں ٹھیک حالت زیادتی میں دیکھا ہو۔ اب یہ ممکن تو نہیں ہوتا  ۔ لیکن اس پر لبرلز نے انتہائی بددیانتی اور دجل سے کام لیا اور تعزیر کے کیس کو حدود بنا کر پیش کیا۔ اس پر مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا انٹرویو ملاحظہ کریں جو ڈاکٹر شاہد مسعود نے حدود آرڈینس کے خاتمہ پر ریکارڈ کیاتھا۔
اب لبرلز اور ملحدین  سے ایک سوال بنتا ہے کہ ذرا اعداد شمار پیش کرو کہ حدود آرڈنینس کے خاتمہ پر تم لوگوں نے ایسے کون سی موثر قانون سازی کی ہے جس نے جبری زنا کی شکار لڑکیوں کو انصاف فراہم کیا ہے اور اب تک کتنی لڑکیوں کو انصاف مل چکا ہے؟ ایک سوال لبرلز اور ملحدین پر قرض ہے۔جو کہ ہر ایک ہرخوف خدا رکھنے والے کے ذمہ ہے ان ظالم لوگوں سے پوچھے۔
یہ سوال کہ حد جاری کرنے کی شرائط اتنی سخت کیوں رکھی گئی ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے" زنا کو کھلے عام ہونے سے روکنے کے لیے"۔ لیکن اس بات کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ چھپ کر زنا جائز ہے۔ خدارحمان کا فرمان ہے کہ زنا کے قریب بھی مت جاو ۔ زنا کرنا تو بہت بعد کی بات ہے۔ ایسے تمام کاموں سے بچنا چاہیے جو زنا کے طرف لےجاتے ہیں۔
اب ایسے ممالک سے  آپ بخوبی واقف ہوں گے جن میں کھلے عام زنا ہوتا ہے اور ساحل سمند ر پر تو بہت عام سی بات ہے۔   کیوں ہوتا ہے؟ ریونج پورن کیا ثبوت نہیں ہے گواہی کے طور پر قابل قبول نہیں ہے؟ جنسی فلم کیا ثبوت نہیں ہے؟   شاید  یا پھر یقینی  طور پر حدود کے قوانین خدا تعالی کی طرف سے آج کے دور کے لیے ہیں۔ معصوم بچوں سے زیادتی کر کے ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈال دیا اور پیسہ کمانا ، کیا اس کا علاج حدود کے علاوہ کوئی اور ہے؟   
اس سے بڑھ کر لواطت کو کھلے عام قبول کرنے اور اپنے آپ کو Gay اور Lesbian کہلوانے میں فخر محسوس کرنا  اور اس پر اپنے حقوق طلب کرنا  جو کہ مغربی ممالک میں بہت عام ہے اس کو پاکستان میں روکنے کے لیے اسلامی حدود کا اطلاق بہت ضروری ہے۔
آج وقت ہے اس چیز پر قابو پانے کا کیونکہ پاکستان کا امن  بحال ہو سکتا ہے معاشرتی نظام  اور معاشرے کا امن بنیاد ہے انسانی فلاح کی۔  ریاست مدینہ کے دعوی سے ایک قد م اگے بڑھنے کا وقت ہے۔ تاکہ اس لعنت سے جن سے لوگوں کو ذہنی مفلوج بنا رکھا ہے غلاظت میں جھونک رکھا ہے چھٹکارا پایا جا سکے۔
میاں محمد عاقب صفدر
17 جنوری 2020

No comments:

Post a Comment